Friday, September 7, 2018

حیا کا فون آیا ۔۔۔۔۔۔

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

وہ شام نہیں تھی  ایک قیامت تھی ۔ سرد موسم تنہا شام رات کے بارہ  بجے میں موبائل پر گیم کھیل رہا تھا کہ مجھے فون  ایا کس نامعلوم نمبر  سے یو جیسا میں نے اس فون کو اٹھایا ایک سہمی سی آواز میرے کانوں کو چھو گی اور کہا کیا اپ حبیب ہی ہو۔ میں ایک پہل کیلے تو حیران ہوا سوچا کیا کہوں جی ہاں میں ہی ہوں فرماے اپ کون؟ ”میں بہت پریشان ہوں“ایک درد بری  آواز ڈری یوی  آواز جیسے  کوی اس زبردستی یہ کال کروا رہا ھے ۔ میں ”حیا“ہو وفا ہوں سادگی ہوں عزت  ہوں خاموش  ہوں میں مظلوم ہوں ڈری ہوی ہوں مجھ میں اور ہیمت نہیں دو بار خودکشی  کی کوشیش کی  ھے  کسی پہ بروسہ نہیں اسی لیے اپ کو فون کیا ۔ اس کی باتوں نے میرا دل ہی اپنے طرف راغب کیا ۔ بس اس کی داستان سننے کو بے چین ہوا پہلے تو ایسا لگا کہ مجھے ایک اور نیوز ملی ھے کل کی کالم پر اس پر بناسکتا ہوں ایک فیچر لیکھ سکتا ہوں اس کی زندگی پر ۔”میں نے بہت کوشیش کی پچهلے دس دن سے کوشیش کر رہی ہوں نمبر ملتا ہوں واپس کھاٹتی ہوں ۔ بس میرا ضمیر مجھے لامت کر رہی ھے ۔ اپ ہی ایک ہو جو مجھے سمجھ سکتے ہوں مجھے ایک ہی اپ پربھروسہ ھے ۔ میں ایک پشتون گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔جب میں بارہ سال کی ہوی تو بس میری زندگی ایک اجر بند گی اس وقت سے اج تک رو رہی ہوں ۔ میں نے کہا ہوا  کیا ھے اپ کا اب مطلب  کیا ھے کچھ صاف صاف  کہوں کہنا کیا چاہتی ہو۔ ”جی میری بات سنو حوا کی بیٹی سے زیادتی ہوی ھے ایک درندے نما شخص کے ہتے چھڑ گی تھی  ۔ اس دن  سے اج تک دس سال ہوے  اور  سکون زندگی میں نہیں دیکھا دو بار خودکشی کی ناکام کوشیش  کی کامیاب نہیں ہوی ۔ میں ہو جی جی کرتا اس کی ان سب باتوں پر بس اور کچھ نہیں دل میں درد سا ہو رہا تھا ۔ کہا تم  اب  کیا کر سکتے ہو میرے  لیے میں کیا کرو مجھے دو رشتے آے انکار  کیا ۔ اللھ  سے وعد کیا تھا کہ میں کسی کو دکھ نہیں دونگی جس سے اس کی زندگی خراب  ہو  ۔ اس حادثے کے بارے میں میرے ماں باپ کو نہ میرے کسی رشتہ دار دوست کو علم  ھے  بس آج  اپ پہلے شخص ہو ۔ میرے انکھوں میں آنسو آے رکھنے  کا نام  نہیں لے  رہے  تھے ۔ کہا رو رو کر کہ  اپ بتاو آخر اب میں کروں کیا کب تک میں ایسی  رشتے ٹکراتی رہونگی ۔ماں باپ  کیا کہں گے  کہ  کیوں نہیں کر  رہی ہوں اگر اپ کو کوی  پسند ھے بتاو ۔جس سے  یہ حادثہ ہوا ھے اس دن سے آج تک مرد نام حرام تھا مجھ پر بھایوں سے نفرت تک کرتی ہوں ۔ کیوں کہ وہ بھی مرد ھے ۔کروں تو آخر کیا کروں یہ بس سن  کر بس کچھ ایسا ہوا کہ آنسو رکھنے کے نام نہیں لیے رہے تھے بس خاموش تھا میں بھی ہو بھی کچھ لمحے کیلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حبیب  کیا ہوا کوی ایس حل بتا ۔۔۔۔۔۔
کہا جو تو ہے وہ  کوی نہیں ۔۔۔جو پہلے تھا وہ اب نہیں 
میں بھی بول جاونگا ۔۔۔۔۔۔۔ اسے بھی بول جا۔۔۔۔۔ 
میں ایک لڑکا ہوں شاید اتنا برا نہ لگے ۔ اگر میں ایک شہور ہوتا تو بتاتا کہ جینا ہی چھوڑ  دے ۔۔ میں صرف اتنا ہی کہتا ہوں کہ جو  ہے بس اسے اپنے دل میں ایک راز  رکھ ۔ دو اس سماج کو دکھ خود کو بدنام نہ کر ۔۔۔۔۔ جو رشتہ اے  اسے  ہاں کر ۔۔۔ میرا اللھ پہ بھروسہ ھے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا بس اتنی ہی بات پوچھنی تھی ۔۔۔۔  کچھ دن بعد یو ہوا کہ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

No comments:

Post a Comment