معاشرے میں ایک کمزور سمجھی جاتی ہوں آواز اٹھاوں تو پتہ نہیں کیسے کیسے ناموں سے نام جوڑا جاتا ھے ۔ کبھی کسی کے سامنے اپنے حق کی بات کرتی ہوں بے شرمی کا لیبل لگا دیا جاتھا ہے یہ ہر عورت کا کہنا ھے معاشرے نے اس پر بہت ظلم کیے ہیں ۔ عارفہ نے پہنچم کلاس ہی تو پاس کیا اس کی شادی کرا دی ۔ معاشرہ کیا کہے گی ابو کی عزت بھایوں کی ڈر سے شادی کیلے ہاں کی ۔اکیس وی صدی کے دور میں بھی شعور نہیں ۔ عارفہ ضلع قعلہ سیف اللھ کے ایک گاوں سے تعلق رکھتی ھے اس کا کہنا ہے کہ میں کلاس کی پوزیشن ہولڈر تھی بہت شوق تھا کہ پڑھوں ۔ گاوں میں اسکول پرائمری تک ہی ہے میں ابو کی اکلوتی بیٹی ہوں ہمیشہ اس سوچ میں تھی میں کلاس چام پاس کر پہنجم میں جاونگی جب تک پہنجم کا سال پورا ہوگا تو حکومت ہمارے اسکول کو بھی ہای اسکول کا درجہ دے کر اور میں میٹرک یہی سے کر پاونگی میرا تعلم ہی میرا جنون تھا ۔ عارفہ کا کہنا تھا کہ میں نے جیسا ہی پہنجم پاس کیا تو بس دکھ ہوا کہ کیوں پاس کیا اب کہاں جاونگی کیسے پڑھونگی ۔ شہر بھی بہت دور ھے آنے جانے کا کوی سولت نہیں ۔ وہاں شہر میں کوی اپنا بھی نہیں کہ میں اپنا تعلم جاری رکھ سکوں ۔ کچھ دن ہی نہیں ہوے تھے کہ ابو نے میری منگنی کرا دی میں ابو سے تو کچھ کہ نہیں سکتی تھی امی کو بہت کہا مگر گھر میں ابو کی دہشت کی وجہ سے کوی آواز نہیں اٹھا سکتاتھا ۔ ”عارفہ کی ابو کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اس بات کا برا لوگ مانتے ہیں کہ جوان لڑکی گھر میں بیٹی ہو اور میں اسے شہر کہ اسکول کیلے بھی نہیں بیجھ سکتا تھا ۔ عارفہ کے ابو کا کہناتھا کہ حکومت کو چاییے کہ نہ صرف ہمارے گاوں بلک ہر گاوں میں لڑکیوں کہ اسکولوں پر خاص توجہ دی تاکہ عارفہ جیسی بچیاں اپنا تعلم پورا کر سکے “ عارفہ جیسے بہت سی بچیاں تعلم کی شوق سے محروم ھے ۔اور ایسی طرح ان کی جلد شادیاں کروا دی جاتی ھے ۔ عارفہ کی شادی کے وقت عارفہ کی عمر چودہ سال ہی تھی۔ عارفہ کا کہنا ھے کہ وہ اب دو بٹیوں کی ماں ھے وہ اپنے بیٹوں کہ سات ایسا ظلم نہیں کرنا چاہتی ھے وہ کہتی ہے کہ شہر جا کر وہاں اپنی بٹیوں کو تعلم دونگی ۔
No comments:
Post a Comment